کالم نگار عمار ملک   
               وہ بہی وزیراعظم تھاپاکستان کا
آج میں جس شخصیت کے بارے میں آپ کو بتاوں گا ان کو کون نہیں جانتا تاریخ میں ان کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے نام سے جانتی ہے آپ سمج تو گئے ہوگئے کے میں بات کر ریا ہو ان کو لیاقت علی خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ یکم اکتوبر 1998کو دہلی کے قریب ایک علاقے کرنال میں نواب گہرانے میں پیدا ہوئے ان کےوالر نواب رستم علی خان کاشمار صوبہ متحدہ اگرہ اور مشرقی پنجاب کے نوابوں میں شمار ہوتا تھا لیاقت علی خان امیرانہ اور خوشحال ماحول میں پرورش پائی گھر پر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیاقت علی خان نے علی گھر کے ام اے او کالج میں داخلہ لیا 1919 میں گریجویٹ ہو کر اعلی تعلیم کےلئے انگلستان چلے گئے وہاں 1921 میں وکالت کا امتحان پاس کرکے وطن وآپس آگئے اور 1922میں آل متحدہ ہندوستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی لیاقت علی خان قائداعظم کے دوست اور تحریک آزادی پاکستان کے بانی رہنما تھے جن کو قائداعظم کا جانشین قرار دیا جاسکتا ہے جن سے ان کی قائدانہ صلاحیتں تھی لیاقت علی خان قائداعظم کے زبردس مادہ تھے 26اپریل 1936 کو مسلم لیگ کا اعزازی سیکرٹری جزل منتخب ہونے کے بعد 1947 میں پاکستان کے قیام تک اس عہدے پر فائز رہے 1947 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور وزیردفاع بنے اکتوبر 1950 میں پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے قائدملت لیاقت علی خان نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں قابل اور بعد میں قوم ملک کی جو خدمت کی وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے تحریک پاکستان میں تویل جہدوجہد کی اور شماع آزادی روشن کرنے کے لئے قائداعظم کے ساتھ کام کیا وہ ان کو استاد دستے راس کہتے تھے قیام پاکستان سے قابل عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے انھوں نے غریب آدمی کابچت پیش کر کے ہندووں اور انگریزوں کی سازش کو جس طرح ناکام بنایا وہ بی ان کارنامہ ہے ان کی وزیردفاع حیثیت سے ان کی وہ تقریر بہت مشہور ہوئی جس میں انھوں نے دشمن کو مکہ دیکھتے ہوئے عوام سے کہا بھائیوں یہ پانج انگلیاں جب تک علیحدہ ہوں توان کی قوت کم ہوگی یہ انگلیاں اگر ایک شکل اختیار کریں تو دشمن کا منہ ٹوٹ سکتا ہے بعد میں قائد ملت کا یہ مکہ اتحاد اور قوت علمت بنا انھوں نے فرمایا کے میرے پاس جائیداد ہے نہ دولت ہے بس ایک جان ہے وہ بی اسلام اور پاکستان پر قربان ہے انھوں جو کہا کر دیکھیا جب تک زندہ ریے قائد ملت کہلائے آپ یہ سوچ رہے ہو گے کے یہ تو نواب ہے اور وہ تو امیر ہوتے ہے جن کو ہر سہولت میسر ہے پھر ہی کسے غریب ہوگئے تو میں اپ کواب بتاتا ہو نواب لیاقت علی خان پاکستان بننے سے پہلے نوابوں والی زندگی گزار رہے تھے ان کو کسی چیز کی کوئی کامی نہیں تھی نوکر چاکر دولت رہائیش زندگی کی ہر وہ چیز جس کا اس وقت لوگ صرف خوابوں اور خیالوں میں ہی سوچتے تھے وہ ان کو میسر تھی آپ اندازہ کی کجیے کہ انھوں نے کتنی قربانی دی ہزاروں میل رقبے پر پھیلی جائیداد چھوڑدی بلکہ پاکستان اکر اس کے عوض کوئی کلیم بی جمع نہیں کروایا اس وقت یہ اصول تھا جو ہندوستان میں اپنی جائیداد چھورتا تھا تو اس کو پاکستان میں اس کے بدلے جائیداد دی جاتی تھی لیکن لیاقت علی خان نے ایسا نہیں کیا آپ دیکھتے ہے کے لوگ غریب ہوتے ہے اور امیر ہو جاتے ہے محنت کر کےلیکن کبی ایسا بندہ نظر سے گزرا جو امیر ہو اور وہ امیری کو چھوڑ کر غریبی والی زندگی گزارے بہت کم لوگ ہوتے ہے جو قربانی ریتے ہے کیوں کے مقصد بہت عظیم تھا لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں ایک انچ زمین نہ کوئی بنک اکاوئٹ اور کوئی کاروبار نہیں تھا ان کے دواچکن  تین پتلونیں اور بوسکی کیاایک قمیض تھی انکی پتلونوں پر بی پیوند لگے ہوتے تھے وہ پتلونوں کو ہمیشہ اپنی اچکن کے نیچے چھپا لیتے تھے 16اکتوبر 1951 کو جب راولپنڑی میں ایک شخص نے گولی مار کر شہید کیا گیا تو جب ان کی نقش پوسٹ مارتم کے لیے لے جائی گئی تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اچکن کے نیچے نہ صرف پٹی بنیان پہن رکھی تھی بلکہ جرابوں میں بہی سوراخ تھے شہہادت کے وقت نہ صرف خان صاحب کا اکاونئت خالی تھا بلک گھر میں کفن دفن کے لئے بی کوئی رقم نہیں تھا خان صاحب اپنے درزی حمیر ئیلر اور ایک کریانہ اسٹور کے بی مقرض تھے بیگم رعنا لیاقت علی خان نے حکومت کو بتایا کہ حکومت نے وزیراعظم ہاوس کے لئے چینی کا کوٹہ طے کر دکھا تھا یہ کوٹہ جب ختم ہو جاتا تھا تو وزیراعظم انگی بیگم انکے بچوں اور اپنے مہمانوں کو بی چائے پیکھی پینی پرتی تھی پچاس کی دہائی میں ایک بیورکریٹ نے بیگم رعنا لیاقت علی خان سے پوچھا انسان ہمیشہ اپنے بیوی اور بچوں کے لئے کچ نہ کچ ضرور جمع کرتا ہے خان صاحب نے کیوں نہیں کیا تھا بیگم صاحبہ نے جواب دیا یہ سوال میں نے بی ایک بار خان صاحب سے پوچھا تھا لیکن خان صاحب نے جواب دیا تھا میں ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں میں نے زندگی میں کبی ایک لباس دوسری بار نہیں پہنا تھا میرے خاندان نے مجے آکسفود یونیوسٹی میں خانسماں خادم اور ڈرایئور دے رکھا تھا ہم لوگ کھانا کھائے یہ نہ کھائے لیکن ہمارے گھر میں روز 100لوگوں کا کھانا پکتا تھا لیکن جب میں پاکستان کا وزیراعظم بنا تو میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا لیاقت علی خان اب تمہیں نوابی یا وزارت عظمی میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا تو میں نے اپنے لئے وزارت عظمی منتخب کرلی بیگم صاحب کا کہنا تھا کہ خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں جب بی میں اپنے لیے نیا کپڑا خریرنے لگتا ہوں تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہو کیا پاکستان کے سارے عوام کو کپڑے میسر ہیں میں جب اپنا مکان بنانے کا سوچھتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کے کیا پاکستان کے تمام عوام اپنے مکانوں میں رہ رہے میں اور جب آپ سے پوچھتا ہوں کیا پاکستان کے تمام بیوی بچوں کے پاس مناسب رقم موجود ہے مجھے جب ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتا ہوں لیاقت علی خان تم ایک غریب ملک کے وزیراعظم کو نیا لباس لمبا چوڑا دستر خان اور زاتی مکان زیب نہیں دیتا پاکستان بہت قربانیوں کے بعد وجود میں آیا ہے یہ یم سب کی زمہ داری ہے کے ہم اپنے وطن سے محبت کریں اور اس کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ ہیں یہی پیغام عام آدمی پارٹی پاکستان کا ہے کے آئے سب مل کر حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ ملک بنائے پاکستان زندہ باد یہ وہ قائد ملت ہےجس نے اپنا سب کچ قربان کر دیا ہم نے کیا دیا اس ملک کو کچ نہیں ایک ووٹ ہے وہ بی نہیں ڈالتے کے ہمیں کیا اس ملک کی قدر کریں کشمیر کے لوگوں سے پوچھے کے آزادی کتنی بڑی نعمت ہے جو چیز مفت ملتی ہے تو اس کی قدر نہیں ہوتی یے ہمیں بی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جس قوم نے ایک بار آزادی کا مزہ چک لیا پر اس قوم کو غلام نہیں بنایا جا سکتا مگر ہم غلام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس