سوموار، 9 اکتوبر، 2017                               کالم نگار عمار ملک

                      
           حکمران ہو تو ایسا کے قوم فخر کریں
رجب طیب اردگان 26 فروری 1953 کو استمبول ترکی میں پیدا ہوئے ان کے والد ترکش فورس گارڑ کے ممبر تھے طیب اردگان کی تعلیم بات کی جائے تو انھوں نے ابتدائی تعلیم سماء پیلے استمبول میں حاصل کی انھوں نے بزنس ایٹمیسٹریشن میں ڈگری اکسارے سکول آف منجمنت سائنس میں حاصل کی پھر انھوں نے مارا مارا یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈگری حاصل کی رجب طیب اردگان نے اپنا سیاست کا آغاز طالب علمی کی زندگی سے کیا انھوں نے 1973 قومی ترکی طالباء یونین کو جوائن کیا انھوں نے 1974میں ایک کتاب لکھی جس میں کمینوزم کو شیطان کا قانون کا درجہ دیا 1976 بیاگلو نوجوان پارٹی کے سربراہ مقرر ہوگئے ان کی سیاسی زنرگی کا اہم موڑ سامنے آیا جب وہ 1974 کو ترکی کے دارالحکومت استنبول کے میئر منتخب ہوگئے ان کی آتے ہی ترکی میں خوف وحراص پھیل گیا کہ یہ اب استنبول میں شہریت کا قانون  نفظ گے لیکن طیب ارداگان نے سب سے پہلے استنبول کا سب سے بڑا مسئلہ جوکہ پانی کاتھا اس کو حل کرتے ہوئے درجنوں 100کلو میٹر کی پائپ لائن بچھائی جس سے استنبول کا 70سالوں پرانہ مسئلہ حل ہوگیا اسکے بعد ان کی زندگی تبدیل ہو کر رہ گئی ان کی شہرت کا گراف آسمانوں پر پہنچ گیا 2001میں انھوںنے جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002 کی الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کیا اور 2003سے 2011تک ترکی کے صدر رہے رجب طیب اردگان 28اگست 2014 سے صدارت کے منسب پر فائض اور عدالت ترقی پارٹی کے سربراہ ہے جو ترک پارلیمان اکثریت رکھتی ہے اکتوبر 2009 میں پاکستان کے دورے پر رجب طیب اردگان کو پاکستان کا سب سے بڑاعزاز نشان پاکستان سے نوازاگیا اور دنیا کے نمور اداروں نے اعلئ سول ایواڈ سے نوازا اور ڈاکٹریت کی ڈگری دی گئی2008میں غزہ کی پتی پر اسرائیل کے حملے کے بعد طیب ارداگان کی حکومت نے اپنے قدیمی حریف اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا اور عالمی سربراہ کانفرس میں انھوں نے سخت احتجاج کیا اور جب اپنے ملک آئے تو عوام نے شاندار استقبال کیا اس واقعہ نے ان کو عالمی اسلام میں ہیرو بنا دیا
جولائی 2015 میں فوج نے جب بغاوت کر دی تو اس سازش کو ترکی کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر ناکام بنادیا انھوں نے 1978میں امناگول بارن کے ساتھ شادی کرلی جس سے ان کے چار بچے ھے طیب ارداگان کی دولت کی بات کی جائے تو وہ ترکی کے دس امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہے اور وہ 185ملین ڈالرکے ملک ہے ان کے استعمال میں دنیا کا سب سے بڑا صدرتی محل اردگان پالس ہے جس کی قمیت 500ملین ڈالر ہے آپ یہ سوچ رہے ہو گئے کے کیا وجہ ہےکے عوام اتنا پیار کرتی ہے طیب اردگان سے تو اب میں بتاتا کے ایسا کیوں ہے  طیب اردگان نے اپنے دورے حکومت میں آئی ایم ایف کا 5۔23 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کر کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرضہ دینے کی آفر کر دی لادینی ملکی تعلیمی نظام کو اسلامی بنانے کے لیئے اقدمات کیے جس کے نتیجے میں جن اسکولوں میں جن طالب علموں کی تعداد 65000تھی وہ 8لاکھ ہو گئی ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98سے بڑھا کر 190کر دی 12سال کی عمر سے قبل قرآن پڑھنے پر پابندی ختم کر کے اور تمام اسکولوں میں قرآن پڑھانا اور دینکی تعلیم دینا لازمی قراردے دیا مسجد اور اسکول کے 100میٹر احاطے میں شراب کا اشتہار ممنوع قرار دیا صرف ایک سال میں 17000نئی مساجد کی تعمیر اور پرانی مساجد بحال کی ساری قوم کےلئیے گرین کارڈکا اجراء کیا جس کے تحت کئی ترکی باشندوں کو ملک کے کسی بھی ہسپتال میں مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگئی خواتین کے لیے پردے کے ساتھ ڈیوٹی کی اجازت دی اور ایک خاتون جج نے 2015 میں اصکاف پہن کر کیس سنا تو اہل یورب میں اہم خبر بن گئی سودی نظام کی بجائے زادات اسلامی بنک کو ترجیح دی کر عوام کو سیدھی راہ دکھائی 2002 میں زدمبادلہ کے زخائر 5۔26بلین ڈالر سے 150بلین ڈالر ہو گئے بارہ سال میں ہوائی اڈاوں کی تعداد 26سے 50کر دی ترکی کو صرف سیاحت سے حاصل ہو نے والی سالانہ آمدانی 20عرب ڈالر ہے 2002سے 2011تک دس سالوں میں 13500کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر کی 2009میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑی چلنے لگیں 1076کلومیٹر نئی ریلوے لائنیں بچھا دی اور 5449کلومیٹر کی مرمت کی ترکی کا تعلیمی بچت 7۔5 عرب ڈالر بڑھاکر 34عرب ڈالر کر دیا رجب طیب اردگان نے استبول کو پولوشن فری کرائم فری مافیہ فری اور رواں دواں ٹریفک والاشہر بنا دیا انھوں نے پانی اور گیس کی لوڑشیڑنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کی ترکش ائیرلائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں ائیرلائن بن گئی 2011میں ان کی پارٹی نے 88۔49فیصد ووٹ لئےیہ ہے وہ کارنامے جب کی بدولت آج کا ترکی اسلامی دنیاکا سربراہ بننے جا رہا ہے اسی سنہرے کارناموں کی برولت رجب طیب اردگان عوام کے دلوں راج کر رہے ہے اب آپ اس کا موازنہ کریں پاکستان سے تو ہم قائد کے بتائے ہوئے اصول اور علامہ اقبال کا فلسفے سے بہت دور چلے گئےہے یہاں تو ریاست کا معائدہ ہی بدل دیا ہے اور اب ریاست جدید ترقی کرتے ہوئے عوام کے بنیادی حقوق بھول کر میٹرو اور موٹروے بنانے میں مصروف ہے جو شہری کا معائدہ تھا ریاست کے ساتھ جان مال صحت تعلیم روزگار اور برابری کا تحفظ وہ ہی بدل دیا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہینں ملتی اسمیں عوام کا بی قصوار ہے کیوں کے ہم ایک قوم نیہں ہجوم ہے جو عارضی چیزوں پر خوش ہو جاتے ہے  اور اپنے اصل حقوق بھول گئے میں ناآمید نیہں عوام سے انشاءاللہ وہ وقت دود نیہں جب باہر سے لوگ نوکریاں کرنے پاکستان آئے گے اور ہم خوشی سے کہے گے  اہے قائد ہم نے تیرے اصول کو اپناکر ترقی کی                                                                                            نہیں ناامید اقبال اپنی دشتےویراں سے زدا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی                                                                                                                امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئےگا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس