کالم نگار عمار ملک 

        یوم پیدائش قومی شاعر علامہ اقبال  

اردو کے عظیم شاعر اور فلسفی علامہ اقبال 9 نومبر 1877کو فجر کے وقت سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کے
والد کا نام نور محمد تھا جو کے ایک دین دار اور تجارت پیشہ شخص تھے سیالکوٹ کے اکثر علماء سے
ان کے دوستنہ مرسم تھے اقبال جب بسم اللہ کی عمر
پہنچے تو شیخ نور محمد انھے مولانا غلام احسن کے
پاس لے گئے مولانا سیالکوٹ میں مسجد میں درس دیا
کرتے تھے اقبال کی تعلیم کی ابتدا قرآن شریف سے
ہوئی ایک روز شہر کے مشہور علماء مولانا سیدمیر احسن مولانہ غلام احسن سے ملنے آئے وہاں ایک بچے
کو دیکھا جو صورت سے مصومیت چلاق  رہی تھی 
پوچھا کس کا بچہ ہے پتہ چلا کے نور محمد کا بیٹا 
ہے دونوں کا قریب کا تعلق تھا اقبال کے والر کو سمجھیا کے اپنے بچہ کو صرف دین کی تعلیم تک محدود نہ کرو اس کو جدید تعلیم بی حاصل کروں
کیوں کے مولانہ سمجھ چکے تھے کے یہ کوئی عام بچہ
نیہں ہے اس میں کوئی خاص بات ضرور ہے اس لئے مولانہ نے اقبال کے والد سے عرض کیا کے اس بچہ کو میری تربیت میں دے دیا جائے اقبال کے والد نے ان کی یہ بات قبول کر لی اور ان کے مدرسے میں اردو فارسی
اور عربی پڑھنا شروع کی مسلمانوں کی خیر خواہی 
کاجزبہ تو اقبال کے گھر کی چیز تھی لیکن مولانہ نے 
ان کو بلند مقام تک پہنچیا  اور علمی اور عملی شکل 
دی  اسکاٹ مشن اسکول میں پڑھنا شروع کر دیا اور 
اقبال بی وہی داخل ہوگئے 16برس کی عمر میں اقبال
نے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا تو اسکول کی طرف سے ان کو تمغہ اور وزیفہ دیا گیا سکول میں کالج کی کلاس بی شروع ہوچکی تھی لہزا اقبال نے وہاں سے ہی تعلیم جاری رکھی اقبال کو شاعری کا شوق تھا بچپن سے ہی اور کبی کبار وہ خود
بی شعر بنالیا کرتے تھے لیکن وہ کسی کو بی کلام سناتے نہیں تھے اور کاغز کے ٹکرے ٹکرے کر دیتے تھے
اس وقت برصغیر داغ کے نام سے خوب واقف تھا داغ
کو اردو زبان پر عبور حاصل تھا جن کی شہرت سے پوری دنیا واقف تھی اقبال نے داغ کو خط لکھا اور 
شاگرد بننے کی درخواست کی تو داغ بے باخوشی قبول کر لیا لیکن کچھ عرصے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کے اس ہرے کو تارشہ نہیں جاسکتا کیوں کے
وہ سمج چکے تھے کے اقبال بہت زہین ہے  اس لئے ان کو فارغ کر دیا یہ کہا کر کے آپ کے قلام کو کسی استاد کی ضرورت نہیں میٹرک کا امتحان پاس کیا 1895 میں اقبال نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اپنے لئے انگریزی فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے 1898 میں اقبال نے بی اے پاس
کیا اور مسٹر کے کے امتحان میں فلسفی میں داخلہ لیا مارچ 1899 میں اقبال نے مسٹر کے امتحان میں پورے پہنجاب میں ٹاپ کیا اس دوران شاعری کا سلسلہ بی جاری رہا 1900 کی شام ان کے کچھ دوستوں نے اقبال کو ایک مشاہرہ میں لے گئے شاعری کی دنیا میں جو بڑےبڑے نام تھے اس زمانے کے وہ سب موجود تھے کیوں کے اقبال ابی نئے تھے اس لئے ان کا نام شروع میں پکارا گیا اقبال نے جب اپنا پہلا شعر پڑھا جس سے اس مشاہدے میں موجود تمام شاعر حیران ہوگئے  جس شعر پر وہ پیش خدمت ہے


موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے 
                        کڑے جو تھے میرے عرقے انفال کے 
تو تمام محفل لوٹ گئی اور شاعروں نے فرمایا کیا بات ہے میاں کیا خوب کلام پڑھا ہے تم نے کے دل ہی خوش کر دیا ہے اس طرح وہاں جو عوام کا ہجوم تھا اس نے بی خواب دات دی یہ ہی وہ مقام تھا جھاں سے اقبال 
کی بحثیت شاعر وجہ شہرت کا آغاز ہوا اس زمانے میں انجمن ہمیت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جوآخری دم تک جاری رہا ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 13
مئی 1900میں ہی اونینٹل کالج میں عربی کے استاد کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا اقبال نے چار سال تک اس کالج میں پڑھیا اقبال نے مزید تعلیم حاصل کرنے 
کے لئے یورپ جانے کا فیصلہ کیا اور تین سال رخصت
لے کر یکم ستمبر 1905کو لاہور سے روانہ ہوئے اور کیمبرج یونیوسٹی میں داخلہ مل گیا وہاں ان کو بہت قابل استادوں سے پڑھنے کا موقعہ ملا اقبال اپنے استادوں سے ملنے لازمی جایا کرتے تھے اپنے استاد کی ہدایت پر اقبال نے جرمنی کی یونیوسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیا اور جرمن زبان سیکھنا شروع
کردی اور 1907میں جرمن یونیوسٹی نے اقبال کو زبانی امتحان پاس کرنے کی ڈگری دی ڈگری ملنے کے
بعد اقبال لندن وآپس آگئے اور یہاں وکالت کی تعلیم
شروع کی اور کامیاب ہوکر وکیل بن گئے اور 1908کو
وطن وآپس آگئے اگلے دن کچ دوستوں کو لے کر نظام دین اولیاء کے مزار پرگئے پھر مرزا غالب کے مزار پر گئے لاہور پہنچنے تو اسٹیشن پر اہل لاہور نے بہت شاندار استقبال کیا اور چند مہینے بعد لاہور میں وکالت شروع کر دی ان کو حکومت تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی پیشکش کی جسے اقبال نے قبول نہیں کیا اور وکالت جاری رکھی لیکن حکومت کے مسلسل درخوست پر گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھنا شروع کر دیا اور وکالت بی جاری رکھی اور پر 13میئی 1910کو استعفہ دے دیا بنگال کی منسوخی کے خلاف یکم مئ 1912 کو اقبال نے موچی دروازا لاہور میں شاندار تقریر کی جس سے مسلمانو کو بہت ہوصلہ ملہ اور اسلامی تشخص کو آجاگر کیا 1914کو
اقبال کے والد وفات پا گئے پھر اقبال نے اپنے والد کے
غم میں مرثیہ تحریر کیا 1923 کو اقبال کو سر کا خطاب ملا اقبال نے بہت سی زبانوں میں کلام لکھا جو
بہت مقبول ہوا اس دوران 1930 کو اقبال والدہ وفات
پاگئی جس پر اقبال بہت رنج میں تھے اقبال کیوں کے
مسلمانوں کی حقوق کی جنگ بی بہت عرصے سے لہڑرہے تھے دوسرے مسلم رہنماوں کے ساتھ انھوں نے مسلم لیگ کے حصہ ہوتے ہوئے قائداعظم کچ زاتی وجوہات کی بنا پر ملک سے باہر گئے تھے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت قائداعظم کے کہنے پر علامہ اقبال نے کی اور علمی اور سیاسی شعور آجاگر کیا جس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا
قائداعظم نے اقبال کو مسلم لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے ممبر بننے کی درخواست کی جو اقبال نے قبول کرلی اور پھر اقبال مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوگئے اقبال کو دو قومی نظریے کا خالق بی کہا جاتا کیوں کے جب یہ کہا جا رہا تھا کے مسلمان اور ہندو ایک ہوکر رہے ہندوستان میں تو اقبال نے اس وقت ہی یہ بول دیا تھا کے مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہے ان کا لباس رہن سہن رسم رواج ثکافت ایک دوسرے سے
الگ ہے مسلمان ایک اللہ کومانتے ہے اس کے بتائے ہوئے اصولوں کےمطابق زندگی گزارتے ہے حلال کھاتے ہے اور امیر ہو کے غریب سب برابر ہے اسلام میں جب کے ہندو کے بہت سےخدا ہے ان کالباس الگ ہے رہن سہن الگ ہے وہ گائے کا دیوتا منتے ہے ثقافت الگ ہے ان میں بہت سی زاتیں ہے اونچ اور نیچ زات جو برابر نہیں اسلئے اقبال نے فرمایا بلآخر ایسا وقت آئے گا کے مسلمانوں کو ایک الگ ملک بنانا پڑے گا اقبال کو مختلف بیماریوں نے جکر لیا جس کی وجہ روز باروز اقبال کی صحت خراب ہوگئے اور دل میں درد ہوا 21اپریل 1938 کو وفات پائی پھر تاریخ نے یہ بات ثابت کر دی کے اقبال کے دو قومی نظریے پر بولا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا مسلمانوں کو ان کا ایک الگ ملک مل گیا پاکستان کی شکل میں اقبال کو جنوبی ایشیا کا صوفی شاعر بی کہا جاتا ہے جنہوں نے بہت بہترین کلام لکھا ان کی شاعری کو بہت سے فنکاروں نے اپنی آواز کے جادو سے مزید چار چند لگا دیئے اقبال نے خودی کے فلسفے کو اجاگر کیا جن کے زریعے مسلمانوں کی رہنمائی ہوئی اور اسلام کو سمجنے میں مدد ملی اقبال نے اپنی شاعری کے زریعے زندگی کے تمام پہلوپر گفتگو کی اقبال نے نوجوانوں کو کامیاب
زندگی گزارنے کا ایک مقصد بتایا کے وہ دل لگا کر محنت کریں اور اپنا مقام بنائے انھوں نےنوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر بہت زور دیا


ترے صوفے ہہں افرنگی ترے کالین ہہں ایرانی
               ہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

امارت کیا شکوہ خروی بی ہو تو کیا حاصل
           نہ زور حیدری تجھ میں نہ استخنانے مسلمانی

نہ ڈھونڈ ایس چیز کو تہزیب حاضر کی تجلی میں
              کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

عقابی روع جب بیدار ہوتی جوانوں میں
              نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

نہ ہو نومید نو میدی زوال علم وعرقان ہے
            امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

نہیں تیرا نشمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہہں
                          ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

اقبال نے مشہور دعا بی لکھی جو آج تک بہت مقبول ہے جس کے چند اشعار پیش خدمت ہے

لب آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
            زندگی شما کی صورت ہو خدایہ میدی

میرے اللہ برائی سے بچنا مجھ کو
            نیک جو راہ ہو اس راہ پے چلنا مجھ کو

شکوہ جواب شکوہ جو بہت مشہور ہوئی

                     شکوہ
بروز حشر میں بے خوف گھس جاوں گا جنت میں
            وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے

                  جواب شکوہ
ان اعمال کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
           وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا

ایک روز اقبال کے بیٹے نے اپنے والد کو خط لکھا جس
میں بیٹے نے کسی چیز کی خواہیش کی جسکےجواب میں علامہ اقبال نے کیا خواب جواب دیا

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
              نیا زمانہ ہے نہی صبح وشام پیدا کر

تیرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
             خودی کو بیچ غریبی میں نام پیدا کر

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس