کالم نگار عمار ملک
                  
              سیاسی قتلوں کی داستان (حصہ دوئم)
ضیاء کے خلاف بھٹو برادران کی طرف سے بنائی ہوئی شدت پسند تنظیم الزوالفقار کے ہاتھوں بھی بہت سے سیاسی مخالفین یا ان کے قرض کیے ہوئے دشمنوں کی جانیں جاتی رہیں- ایسی دہشت گردانہ وار داتوں میں مبینہ طور پر چوہدری ظہور الہی ، ظہور الحسن پھوپالی اور کیپٹن طارق رحیم کے کیس نمایاں ہیں- جبکہ اپنی کاروائیوں میں حصہ لیتے الزوافقار کے رحمت نجم، الیاس صیدقی، لالا اسد شیخ، اعظم پھٹان ، سمیت کئ نوجوان مارے گئے تھے- ضیاء الحق کے دور میں شیعہ مزہبی رہنما علامہ عارف الحسینی قتل ہوئے جن کا شیعوں کی اکثریت نے الزام براہ راست ضیاء الحق اور ان کے دست راست گورنرسرحد جزل فضل حق اور دیگر لوگوں پر لگا- کچھ دنوں بعد ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ہوائی جہاز کے حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے لیکن پاکستان میں معقول سازش تھیوریاں یہ ہیں کہ انہیں فوج کے اندرون خانہ سازش یا بین الاقوامی سازش کے تحت ہلاک کیا گیا- ضیاء دور کے خاتمے پر بینظیر بھٹو اقتدار میں دو مرتبہ آئیں اور ان کے دونوں ادوار میں بھی سیاسی مخالفین کے سیاسی قتل جاری رہے یہاں تک کہ ان کا ناراض بھائی بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا- جس کا الزام ان کے شوہر آصف علی زرداری سندھ کے سابق وزیر اعلی ، عبد اللہ شاہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ مسعود شریف اور واجد علی درانی سمیت کئی پولیس افسروں پر لگا- ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کے قتل اور ممبران صوبائی اسمبلی غلام حسین انٹر ، علی محمد ہنگورو اور معمر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی سرکاری تحویل میں اموات بھی ان کے مخالف بینظیر بھٹو حکومت کے ہی کھاتے میں ڈالتے ہیں- جبکہ ایم کیوایم حزب اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں مبینہ طور بے شمار سیاسی مخالفین کے قتل کے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں پارٹی کے بہت سے لوگ شامل ہیں- مقبول گیت جو سب جگہ مشہور تھا اور ہر بچہ بچہ جانتا ہے (جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے انیس اکیانوے میں کراچی کی دیواروں پر راتوں رات لکھا ہوا ملا تھا- نوازشریف دور حکومت میں بھی ایم کیوایم کے کارکنوں اور الزوالفقار والوں سمیت کئی ماروائے عدالت قتل کے کیسز ملتے ہیں- سب سے ہائی پروفائیل کیس فوج کے باتھوں نو کسانوں کی ہلاکتیں ہوئی جنہیں ابتدائی طور پر اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا- مشرف دور حکومت میں اکبر بگٹی کی ہلاکت ضیاء الحق اور مشرف میں طویل المدت مطق العنانت کے علاوہ ایک اور بھی مماثلت ہے وہ یہ ایک کے ہاتھ پر بھٹو کے خون اور دوسرے کے ہاتھ پر بگٹی کے خون کے الزامات لگتے ہیں- اور موجود دور حکومت کا مشہور زمانہ کیس سانحہ ماڈل ٹاون کون بھول سکتا کس طرح سب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے یہ خوف ناک وردات دیکھی جو کے ایک اہم ثبوت ہے 14بندوں کی شہادت اور بہت سے زخمیوں کا الزام پنجاب حکومت پر لگتا ہے - ہر قوم اپنی تاریخ سے سبق سیکھاتی ہے لیکن ہمیں سمجھ جانا چاہیئے ک یہ سب سیاسی قتل ہے جن کی کبھی بھی تحقیقات نہیں ہوگئی اور آگے کتنے سیاسی قتل کیے جائے گے طاقت کے نشے میں انسان یہ بھول جاتا ہے طاقت ساری عمر نہیں رہتی تمام سیاسی قتل سدا پراسرار اور ناقابل حل تاریخی معمہ ہی رہیی گے-

(خبردار یہ ایک ایسا راز ہے میرے اس کالم کو پڑھ کر بول جائے کیوں کے ہماری تاریخ رہی ہے مٹی پہو اس لئے کہتے ہیں نہ کے سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے )

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا-

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس