اشاعتیں

جنوری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
تصویر
کالم نگار عمار ملک زینب زیادتی کیس ایک اور پھول مرجاگیا میرے پاس الفاظ نہیں دل بہت مرجاسا گیا ہے - کہا سے شروع کروں کہا ختم بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہے جن پر لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے- یہ ایک ایسی ظلم کی داستان ہے جس پر بول کر انسان خود ہی افسردہ ہو جاتا ہے- کیوں کہ انسان کسی دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتا ہے- مگر افسوس ہمیں اپنے اردگرد کچھ ایسے جانور ملے گے جن کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں وہ حیوان  ہے اپنی نفسانی حواس کو پورا کرنے کے لئے کسی بی حد تک جا سکتے ہیں- ان پر ہمیں نظر رکھنا ہوگی- اب ہم کیا کہا کہ ہم مسلمان ہے کیا یہ کام کوئی مسلمان کر سکتا تو دور کی بات سوچ بی نہیں سکتا آج ہم مسلمان ہوتے ہوئے انسان ہوتے ہوئے یہ معاشرہ اتنا نیچے گہر سکتا ہے یہ میں سوچ بی نہیں سکتا یہ باتیں تو ہم سونتے تھے کہ مغربی معاشرے میں بہت آزادی ہے- وہاں زیادتی ہوتی ہے (بچوں عورتوں کے ساتھ ) کیوں کہ وہ معاشرہ تو آخرت پر یقین نہیں رکھتا انھے دنیا میں ہی سب کچھ چاہئے - اس لئے اس کے تمام قوانین اسلام مخالف ہے کوئی خاندانی نظام نہیں ، رشتے بے معنی، کوئی حقوق نہیں، ماں ، باپ ، بہ
تصویر
کالم نگار عمار ملک                                  سیاسی قتلوں کی داستان (حصہ دوئم) ضیاء کے خلاف بھٹو برادران کی طرف سے بنائی ہوئی شدت پسند تنظیم الزوالفقار کے ہاتھوں بھی بہت سے سیاسی مخالفین یا ان کے قرض کیے ہوئے دشمنوں کی جانیں جاتی رہیں- ایسی دہشت گردانہ وار داتوں میں مبینہ طور پر چوہدری ظہور الہی ، ظہور الحسن پھوپالی اور کیپٹن طارق رحیم کے کیس نمایاں ہیں- جبکہ اپنی کاروائیوں میں حصہ لیتے الزوافقار کے رحمت نجم، الیاس صیدقی، لالا اسد شیخ، اعظم پھٹان ، سمیت کئ نوجوان مارے گئے تھے- ضیاء الحق کے دور میں شیعہ مزہبی رہنما علامہ عارف الحسینی قتل ہوئے جن کا شیعوں کی اکثریت نے الزام براہ راست ضیاء الحق اور ان کے دست راست گورنرسرحد جزل فضل حق اور دیگر لوگوں پر لگا- کچھ دنوں بعد ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ہوائی جہاز کے حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے لیکن پاکستان میں معقول سازش تھیوریاں یہ ہیں کہ انہیں فوج کے اندرون خانہ سازش یا بین الاقوامی سازش کے تحت ہلاک کیا گیا- ضیاء دور کے خاتمے پر بینظیر بھٹو اقتدار میں دو مرتبہ آئیں اور ان کے دونوں ادوار میں بھی سیاسی مخالفین کے سیاسی قتل
تصویر
   کالم نگار عمار ملک                     سیاسی قتلوں کی داستان ویسے تو پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کی بمشکل پہلی ہی سالگرہ کے ایک ماہ بعد ہی فوت ہو جانے کو بہت سے لوگوں نے فطری موت ماننے سے انکار کر دیا تھا اور آج تک لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کہتی ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا- کچھ لوگوں کا خیال ہے انہیں زیارت ریزیڑنسی میں مرنے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا- لیکن پاکستان میں سیاسی مگر آج تک غیر حل شدہ قتلوں کی تاریخ خود وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوتی بتائی جاتی ہے جب انہیں کمپنی باغ راولپنڑی میں بھرے جلسے میں گولی ماردی گئی تھی- تو ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی ان کے مبینہ قاتل سید اکبر خان کو گولی مار کر تو لیاقت علی خان کے قتل کیس کو ہی گولی ماردی تھی- اس لئے جب بھی پاکستان میں کوئی سیاسی قتل ہوتا ہے تو عوام کہتے ہیں اس کی تحقیقات کا حشر بھی لیاقت علی خان کے کیس جیسا ہوگا- لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے پہلا سیاسی قتل نوجوان سیاسی کارکن حسن ناصر کا تھا جنہیں لیاقت علی خان کے دور حکومت میں لاہہور کے شاہی قلعے میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا