کالم نگار عمار ملک

                   سیاسی قتلوں کی داستان

ویسے تو پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کی بمشکل پہلی ہی سالگرہ کے ایک ماہ بعد ہی فوت ہو جانے کو بہت سے لوگوں نے فطری موت ماننے سے انکار کر دیا تھا اور آج تک لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کہتی ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا- کچھ لوگوں کا خیال ہے انہیں زیارت ریزیڑنسی میں مرنے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا- لیکن پاکستان میں سیاسی مگر آج تک غیر حل شدہ قتلوں کی تاریخ خود وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوتی بتائی جاتی ہے جب انہیں کمپنی باغ راولپنڑی میں بھرے جلسے میں گولی ماردی گئی تھی- تو ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی ان کے مبینہ قاتل سید اکبر خان کو گولی مار کر تو لیاقت علی خان کے قتل کیس کو ہی گولی ماردی تھی- اس لئے جب بھی پاکستان میں کوئی سیاسی قتل ہوتا ہے تو عوام کہتے ہیں اس کی تحقیقات کا حشر بھی لیاقت علی خان کے کیس جیسا ہوگا- لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے پہلا سیاسی قتل نوجوان سیاسی کارکن حسن ناصر کا تھا جنہیں لیاقت علی خان کے دور حکومت میں لاہہور کے شاہی قلعے میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا- اگر کوئی غور سے دیکھے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی لڑائی مار کٹائی سے بھرپور فلم اور سیاسی قتلوں کی تاریخ سے جو حسن ناصر سے لیاقت علی خان ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ضیاء الحق تک اور مرتضی بھٹو سے لے کر اکبر بگٹی تک کہی جاتی ہے- یہ تمام ہلاکتیں نہایت ہی پر سرار اور تاحال غیر حل شدہ داخل دفتر ہیں- ایوب خان کا آمرانہ زمانہ آیا اکتوبر انکلاب کہا گیا انیس سو ساتھ کی دہائی میں دوسری بلوچ بغاوت ہوئی- سردار نوروزخان کی قیادت میں بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے جہاں سے حکومت نے قرآن پر صلح کا جھوٹا حلف دیکر نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارا اور انہیں ان کے بھائی اور بیٹوں سمیت بعد میں حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئ- یحیی خان کے دور میں اگرچہ سیاسی مخالفین کے سیاسی قتل انفرادی طور پر فقط پیپلزپارٹی نے اپنے سرحد کے رہنما جن نواز گنڑا پور کی موت کو قراردیا تھا جسے حکومت نے طوفانی بجلی کے ٹوٹنے سے قرار دیا تھا لیکن یحیی خان دور میں سابق مشرقی پاکستان میں لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام بھی سیاسی تھا- زوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی قتل کو ایک طرح سے ایک ادارے کی شکل ملی ہوئی تھی- ڈیرہ غازی خان میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نزیر کا قتل لاہور میں خواجہ رفیق اور نواب احمد محمد خان قصوری کے قتل سندھ میں امین فقیرسمیت پیرپگاڑو کے چھ حروں اور انجنیئرنگ کالج جامشورو کے لیکچرر اشوک کمار اور کراچی میں عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل کی آج تک گمشدگیاں بلوچستان میں نوروز خان نصیر مولوی شمس الدین کے قتل نہیں معلوم کہ بھٹو اور اکبر بگٹی کو تاریخ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران سینکڑوں بلوچوں کے قتل کی جوابداری میں شک کا فائدہ دے گی یا نہیں- بھٹو کے ہی دور میں ان کے وزیر اور دوست حیات محمد خان شیرپاو کا قتل پشاور یونیورسٹی میں ہوا- جس کا اس دور کی حکومت اور بہت سے لوگوں نے الزام خان عبدالولی کی نیشنل عوامی پارٹی اور اس کی طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پر لگایا تھا لیکن ایسے بھی بہت سے بھٹو مخالف لوگ تھے جو شیرپاو کے قتل کا الزام خود بھٹو حکومت پر لگاتے تھے- اسی طرح کوئٹہ میں معمرو ممتاز پشتون رہنما عبد العمد خان اچکزئی کا قتل بھی پراسرار ریت کے پردے میں ملقوف دیا- بھٹو نے بلوچستان میں قید اپنے سیاسی مخالف چوہدری ظہور الہی کو بھی قتل کروانے کے لئے اس وقت کے گورنر اکبر بگٹی کو کہا تھا جنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا- اسی دور میں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری قتل ہوئے جس کی ایف آئی آر بھٹو پر کاٹی گئی- ضیاء الحق کے دور حکومت میں اگرچہ بھٹو کو نواب قصوری کے قتل کیس میں موت کی سزادے دی گئی لیکن ان کی پارٹی والوں کے علاوہ بہت سے لوگ اور غیر جانبدار مبصر بھی بھٹو کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیتے ہیں- بلکہ بقول شخص کے ایک تختے میں دوگردنیں نظر آرہی تھیں- ضیاء دور میں مخالفین کے قتل ہوئے جن میں طالب العلم رہنما نزیر عباسی جنکے قتل کا پرچہ بینظیر دور حکومت میں انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڑیئر امتیاز اور دیگر فوجی اہلکاروں کے خلاف کاٹ دیا گیا تھا تشدد کے ذریعے فوجی تحویل میں موت نمایاں واقعات میں سے ایک ہے-ضیاء دور میں مخالفین شاہنواز بھٹو کی جنوبی فرانس میں پر اسرار موت پھانسی پانے والے ناصر بلوچ ایاز سموں ادریس طوطی عثمان غنی ضلع دادو میں سندھ یونیورسٹی کی بسوں پر ریلوے پھاٹک پر فوج کی فائرنگ سے پانچ ہلاکتوں کالونی ٹیکسٹائیل مل ملتان میں مزدوروں کی پولیس فائرنگ سے ہلاکتوں اور سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک میں سینکڑوں لوگوں کی فوجی نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کو بھی کئی لوگ ضیاء دور حکومت کے ہاتھوں قتل قرار دیتے ہیں -

تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کے تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتا -

حصہ اول  کالم جاری -

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا-

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس