کالم نگار عمار ملک

زینب زیادتی کیس ایک اور پھول مرجاگیا
میرے پاس الفاظ نہیں دل بہت مرجاسا گیا ہے - کہا سے شروع کروں کہا ختم بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہے جن پر لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے- یہ ایک ایسی ظلم کی داستان ہے جس پر بول کر انسان خود ہی افسردہ ہو جاتا ہے- کیوں کہ انسان کسی دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتا ہے- مگر افسوس ہمیں اپنے اردگرد کچھ ایسے جانور ملے گے جن کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں وہ حیوان  ہے اپنی نفسانی حواس کو پورا کرنے کے لئے کسی بی حد تک جا سکتے ہیں- ان پر ہمیں نظر رکھنا ہوگی- اب ہم کیا کہا کہ ہم مسلمان ہے کیا یہ کام کوئی مسلمان کر سکتا تو دور کی بات سوچ بی نہیں سکتا آج ہم مسلمان ہوتے ہوئے انسان ہوتے ہوئے یہ معاشرہ اتنا نیچے گہر سکتا ہے یہ میں سوچ بی نہیں سکتا یہ باتیں تو ہم سونتے تھے کہ مغربی معاشرے میں بہت آزادی ہے- وہاں زیادتی ہوتی ہے (بچوں عورتوں کے ساتھ ) کیوں کہ وہ معاشرہ تو آخرت پر یقین نہیں رکھتا انھے دنیا میں ہی سب کچھ چاہئے - اس لئے اس کے تمام قوانین اسلام مخالف ہے کوئی خاندانی نظام نہیں ، رشتے بے معنی، کوئی حقوق نہیں، ماں ، باپ ، بہن ، بھائی، اس طرح بہت سے ایسے رشتے جو بے نام ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں جو برائے نام ہے - ہم یہ سمجھتے تھے کے یہ لوگ بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں ہمیں کیا پتہ تھا کے یہ دن ہمیں بی دیکھنے پڑھئے گے- جہاں رشتوں کا لحاظ ختم ہو جائے گا انسانیت اس درجے گہر جائے گی بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کے ہمارے معاشرے میں انسانیت ختم ہوگی ہے اور اس کی جگہ حیوانیت نے لے لی ہے- ہم یہ کس معاشرے میں جی رہیں ہے ہم تو مسلمان ہے اسلام کے منانے والے خود کو آخری نبی کا امتی کہنے والے کیا یہ معصوم زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کوئی مسلمان کرسکتا ہے ، (یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اس بے حس معاشرے میں یہ کیا ہو ریا ہے یہاں کسی کو کسی دوسرے کی پرواہ نہیں ہر بندہ اپنے آپ میں اتنا گم ہے کہ جو بی زیادتی ہو ناانصافی ہو کوئی پوچھنے والا نہیں کو بولنے والا نہیں ہم لوگ انسان نہیں زندہ لاشیں ہے - جن کا کام صرف فضول باتیں کرنا ہے ہمیں اپنے ماحول معاشرے ملک سے کوئی پیار نہیں زینب ہماری بیٹی نہیں کیا اس کے ماں،باپ کے دل پر کیا گزاریں گی کے جس بچے کو دن رت ایک  کر کے بڑا کیا وہ پھول کہلنے سے پہلے ہی مرجاگیا- یہ درد ہر وہ ماں باپ محسوس کر سکتا جن کے اپنے بچے ہے ان کے دلوں پر اس وقت کیا گزرے گئی جب وہ زینب کی جگہ ان کی اپنی بچی نظروں کے سامنے آجاتی ہوگی-
(آج زینب ہم سے یہ سوال کر رہی چیخ چیخ کر کے میرا قصور کیا تھا یہ قصور تھا کے اس حیوانوں کے معاشرے میں پیدا ہوگئی جہاں کوئی قانون نہیں کوئی بات سننے والا نہیں جہاں ناانصافی عام بات زیادتی روز کی بات جہاں ظلم ظالم کی سر کا تاج جہاں انصاف پر ہے اس کا راج جہاں مظلوم جیل میں اور ظالم ہو آزاد، اس نظام میں غریب کا پوچھنے والا کوئی نہیں جہاں عدل انصاف رقص کرتا ہوا تماشا دیکھا رہا ہے کے لوگوں کی عزت ابرو لوٹ رہی ہے مگر  ان کو کیا کوئی فرق نہیں پڑا )- ہم یہ سوال کس سے کریں کے آخر کب تک یہ ظلم ہوتا رہے گا -ہمارے بچوں کے ساتھ یہ زیادتی ہم کب تک برداشت کریں گے- ہمارے (مدرسے محفوظ نہیں بازار محفوظ نہیں ہسپتال محفوظ نہیں سکول محفوظ نہیں تفریحی مقامات محفوظ نہیں کوئی جگہ محفوظ نہیں (زینب ایک نہیں اس جیسی لاکھوں بچوں سے ان کا جینے کاحق چھین کر وہ پھول جسے چہرے جو کے معصوم ہے جن کو اس دنیا کا کوئی علم نہیں وہ اپنے آپ میں گم تھے ان کو کیا پتا تھا ان ننھے ستاروں سے تو محبت کی جاتی ہے جہاں یہ ظلم کا عزاب نہ ہو ہر ایک کی عزت کا لحاظ ہو ہم اب تک آرمی پبلک سکول کے بچوں کا غم نہیں بھول پائے ان کے ماں باپ سے پوچھو کیا گزار رہی ہے ان کے دلوں جینے کا مقصد ہی ختم ہوگیا ہے ان کا تو اب ہم ایک اور حادثے برداشت نہیں کرسکتے ہم بے جان ہو چکے ہے- پھول جیسے بچوں کو نالے میں پھینک دیا کسی کو دریا میں کسی کوگندہ کے ڈھیر میں جس کو میڈیا عوام کے سامنے لے آئے اور جو نہ آئے ان کا کیا یہ ایک ایسا سچ ہے جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں-

(غور سے دیکھ میری معصومیت کو اے ابن آدم
        میں ہوا کی بیٹی ہو تیرے ہاتھ کا کھلونا نہیں)-

کالم جاری ہے -

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا-

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس