کالم نگار عمار ملک

              آخر ظلم کا شکار مسلمان ہی کیوں
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو برمہ کے مسلمانوں کی آمد اسلام کے آغاز سے 100 سال بعد 660 ایسوی میں ہوئی لیکن یہ مسلمان برما حملہ آور کی صورت میں نہیں بلکہ تاجروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی صورت میں آئے اس عہد میں مسلم عرب بحری سفر کے زریعے ایک جزیرےچائنا
کے راستے برما میں داخل ہوئے اور پھر ان میں سے
کچ برمی مسلمانوں کا حصہ بنے آہستہ آہستہ ان 
لوگوں نے برمی عورتوں سے شاری کرکے اپنے خاندان
وہی آباد کر لئے ان میں تاجروں جنگجوں اور پناہ
گزینوں کی تعداد نمایاں تھی برما کی وسیع ونظر
اور وسیح قلب حکمران میڈان آف میلٹنے نے ان کو
چائینہ مسلمان تسلیم کرتے ہوئے وہاں عبادت کے لئے
مسجد تعمیر کرنے کی بی اجازت دے دی مسلمانوں
نے اس اجازت کے بعد یمنی حکمران سے مالی امداد
کی درخواست کی اور 1868میں یمنی حکومت کے
تعاون سے اس شاندار مسجد کی تکمیل ہوئی جو کے 
آج بی تاریخی علامت کے طور پر موجود ہے برما میں
مسلمانوں کی اکثریت کو پیتی کا نام دیا گیا برمہ کے
جنوبی حصے جو کے ڈالی تینو کے قریب آباد ہوئی
ایک زمانے تک برمہ کے مسلمانوں اور بدھ مت مزہب
کے پروکاروں کے درمیان اتنی دوستانہ تعلقات تھے
اس کی ایک مثال یہ کے برمی حکومت نے مسلمان 
حاجیوں کے سہولت کے لئے مکہ میں کوفہ کے نام 
سے ریست ہاوس بی تعمیر کر دیا جہاں حج کے دنوں
میں برمی حکومت کی جانب سے حاجیوں کو تمام 
سہولیت دی جاتی تھی مسلمان تاجروں نے کم وقت
میں ہی تجارتی دنیا میں اپنا مقام بناتے ہوئے ایک
طاقتور اقلیت بن چکے تھے اور انھے وائیسرائے کی 
جانب گورنر تک کے عہدوں پر فائز کیا گیا 1853 میں
بادشاہ نے مسلمان فوجیوں کو حلال خوراک فراہم
کرنے کی ہدایت دی اور 700جوانوں رہائیش میں دی
گئ اقلیتوں کے بارے میں ملکی قوانین کے مطابق ملک
میں نہ صرف تمام اقلیتوں کو مکمل مزہبی آزادی ہے
بلک وہاں قانون برابری کا حقوق دینے کی بی ہدایت
کرتا ہے یہ تمام اقلیتوں بغیر رنگ ونسل اور مزہب کے 
ایک لمبے عرصے سے پرامن بردارانہ زندگی گزار رہے تھے لیکن بدقسمتی سے برطانوی عہدے اقتدار میں
انڈیا میں آزادی کی تحریک کا بدما میں بی نسلی 
فسادات پھوٹ پڑے جس کا زیادہ نقصان مسلمانوں
کواتھنا پڑا جب بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں
کے درمیان نفرت کا بیچ بودیاگیا پھر 16مارچ 1997
دن کے 3بجے یہ خبر جنگ میں آگ کی طرح پھیلی 
کے تین مسلمانوں نے ایک عورت کے ساتھ جنسی 
زیادتی کی جس کے بعد 1500بدھ اور دیگر قومیتوں
کے لوگوں نے مسلمانوں کی مسجد پر حملہ کیا ان 
کے گھر دکانیں جلادی گئ اور کئی مسلمانوں کو قتل 
کر دیا گیا یہ سلسلہ چلتا رہ لیکن 2012میں اس میں
تیزی آگئی جب یہ جھوٹی خبر پھیلی کے مسلمانوں
نے ایک دکان سے کھانا کھایا اور پیسے ادا نہیں کیے
پر فسادات پھوٹ پڑے مسلم آشیانے جلادیے گئے 
جبکے پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اس فساد کی بنیادی وجہ برمہ کی حکومت نے ان مسلمانوں کو 
ملکی شہری تسلیم کرنے سے ہی انکار کر ریا جس سے فسادات میں اضافہ ہو گیا اور2017تک 2لاکھ لوگ 
شہید ہوگئے ہے اوراب تک5لاکھ لوگ نکل مکانی کر چکے ہے کیوں کے برمہ کی حکومت نے ان کو یہاں سے نکل جانے کا حکم دیا ہے کل 15لاکھ آبادی ہے برمہ کے مسلمانوں کی اور یہ علاقہ برمہ اور بنگلادیش کے کی سرحد کے قریب واقع ہے ان لوگوں کو تجارت کی آزادی نہیں نہ ہی صحت کی ان کو کوئی سہولت نہیں
ان کو مزہبی آزادی حاصل نہیں اور نہ ہی مسجد میں
ازان دینے کی اجازت ان کو ملک کے دوسرے علاقوں سے کاٹ دیا گیا ہے ان کوشادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی بی اجازت نہیں ان کو زندہ جلا دیا گیا ہے بہت سے لوگ سمندری راستے سے بنگلادیش آنے کی کوشیش کی جب کے حکومت نے سرحد ہی بند کر دی اور بہت سے لوگ دریا میں ڈوب کر شہید ہوگئے آج کے اس جدید دور میں مسلمان جانوروں سے بی بتر زندگی گزادنے پر مجبور ہے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے برمہ کی حکومت نے اقوام متحدہ کو ان
مسلمانوں کو کہی اور منتکل کرنے کا کہا ہے امن
مشن کے سفیروں کو بہی برمہ کے حکومت نے آنے
کی اجازت نہیں دی آپ اندازہ کریں کے مسلمان تعداد
میں زیادہ ہونے کے باوجود بےہس ہے کہا ہے وہ امن کے دعوےدار جو صرف بیانات دیتے ہے پر عمل کچھ نہیں
کیا آپ نے کبی دیکھا ہے کے کسی کافر کے ساتھ ظلم ہو رہا ہوتا  پوری دنیامیں قیامت آگئ ہوتی پر نظر ڈالے تو کشمیر عراق فلسطین یمن سب جگہ مسلمان ہی شہید ہو رہے ہے یہ مسئلہ بہ سوشل میڈیا نے اوجاگر کیا ہے سب مسلم ملک سودہے یے کسی کو کیا
پروا ان مظلوموں صرف ترکی کی حکومت ہے جس نے ان کی مالی مداد کا اعلان کیا اور اخلاقی بی یہ ہر مسئلے کے ساتھ ہوتا پہلے سب سر پر اٹھاتے ہے اور
پر ایسے بھول جاتے ہے جسے کچ ہوا ہی نہیں جب دہشتگرد کو امن کا نوبل انعام دیا جائے بدمہ کی صدر
کو تو یہ ہی ہوگا کاش مسلمان ایک ہوتے تو ایسا نہ
ہوتا


شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود ہم کہتے ہیں کے
تھے بی نہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاری تو
تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود ہوں تو سید بی مرزا بی ہوں افغان
بی تم سبھی کچھ ہوبتاو تو مسلمان بی ہو


امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس