کالم نگار عمار ملک
      

        انسان نے خدا سے لمبی عمر مانگی

ایک فرضی کہانی پیش خدمت امید ہے بہتر طریقے سے آپ کی رہنمائی ہوگی پہلے دن خدا ایک گائے بنائی اور اس سے بولا تمہارا کام ہے کسان کے ساتھ کھیت میں ہل چلانا بچے درنا رینا دورھ دینا اور پورا دن تپتی دھوپ سیکنا تمھاری عمر ساٹھ سال ہوگی گائے نے شکایت کی کے یہ تو بڑی کٹھن زندگی ہوگئ مہربانی کرکے مجھے صرف بیس سال کی زندگی دے دیں باقی چالیس سال اپنے پاس رکھ لیں خدا نے حامی بھرلی دوسرے دن خدا نے ایک کتا بنایا اور اس کو بولا تمھارا کام ہے سارا دن گھر کے باہر بیٹھنا اور ہر آنے جانے والے پر بھوکنا تمھاری عمر بیس سال ہوگی کتے نے شکوہ کیا کے اتنی لمبی زندگی اس نے بولا کے مہربانی کرکے آپ دس سال اپنے رکھ لیں مجھے صرف دس سال کی زندگی دے دیں خدا نے ایک بندر کو تخلیق کیا اور اس کو بولا کے تمھارا کام ہے ہر وقت مستیاں کرنا کھیلنا کودنا چھلانگیں لگانا منہ بنا بنا کر بچوں کو ہنسانا اور تمھاری عمر بی بیس سال ہوگی بندر نے بولا میری توبہ میں اتنی عجیب عجیب حرکتیں اتنی لمبی مدت تک کیسی کروں گا مہربانی کرکے میری زندگی کی مدت دس سال کردیں خدا نے بولا اچھا ٹھیک ہے اور اس سال اپنے پاس دکھ لے چوتھے دن خدا نے انسان کو پیدا کیا اور بولا کے تمھارا کام ہے کھانا پینا سونا ٹی وی دیکھنا آرام کرنا مزے کرنا اور اپنی خواہشات پوری کرنا اور تمھاری عمر ہوگی بیس سال انسان پھر گیا بولا اتنی لامعدود خواہشات میں مجھے اتنی مختصر زندگی سے کیا لینا دینا آپ مہربانی کرکے مجھے گائے کے چالیس سال کتے کے دس سال اور بندر کے دس سال جو انھوں نے آپ کو وآپس کیے تھے وہ بی مجھے دے دیں اس طرح کل ملا کر میرے پاس اسی سال کی زندگی ہونی چایئے خدا نے بولا اچھا ٹھیک ہے شاباش جا زندگی شروع کر انسان نے زندگی کے شروع کے پہلے بیس سال صرف کھایا پیا سویا ٹی وی دہکھا شادی کی اس کے بچے پیدا ہوگئے اگلے چالیس سال اس نے گائے کے گزارے کام کام کام محنت محنت ہر روز تاکے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکے جب گائے کے چالیس سال ختم ہوگئے تو اس نے بندر کے دس سال شروع کئے اب وہ دادا دادی نانا نانی بن چکا تھا اپنے پوتوں کو ہنساتا اور دن بہر ان کے ساتھ کھیلنے میں مصروف رہا اس کے زندگی کے ستر سال بیت گئے اب اس کے پاس دس سال بچے تھے وہ گھر کے باہر سارا دن بیٹھا رہتا گھر کی نگرانی کرتا اور ہر آنے جانے والے پر بے جا بھونکتا رہتا اب آپ زرا سوچھے یہ ہے انسان کی پوری عمر وہ دنیا میں تو سب بھول گیا اور کتنا بدل گیا وہ ہر وقت یہ ہی سوچھتا ہے کے میں اتنے پیسے کمالو تاکے ساری عمر اچھی گزارے لیکن ایسا نہیں ہوتا کیوں کے خواہشات ایک ایسی دیمک ہے جو انسان کو کبی سکون سے زندگی نہیں گزادنے دے گی کیوں کے اس نے انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑا جو سب کچ زندگی میں پانہ چاہتا ہے لیکن یہ بھول گیا کے کیا معائدہ تھا اس کا اپنے پیدا کدنے والے اس رب کے ساتھ جس سے یہ دنیا میں آنے سے پہلے یہ وعدہ کر کے آیا تھا کے میں آپ کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی گزاروں گا اچھے اعمال کروں گا برے کاموں سے دور رہوں گا لیکن جب دنیا میں آیا تو بھول ہی گیا خالق کون رزق کون عزت دینے والا کون دنیا اور آخرت ساوارنے والا کون صرف یہ یاد ہے کے سب کچھ صرف پیسہ ہے وہ ہوگا تو سب کام ہوگئے کیا بات ہے اس پیسے کی جس کے پاس ہے وہ بی رہو رہا ہے اور جس کے پاس نہیں وہ بہ رہو رہا ہے جس طرح کافر بدھ بناتے ہے اور پھر آن کی پوجا کرتے ہے وہ بی کتنے بے وقوف ہے کیا ان کو نہیں پتا کے بدھ کیا کسی کو کچ دے جو خود محتاج ہے انسان کے جو اس کو صاف کرے لیکن ایسا اس لئے ہے کے بعض اوقات انسان کو سب کچھ نظر آتے ہوئے بی کچھ نظر نہیں آتا وہ صرف وہ دیکھنا چاہتا ہے جو اس کو پسند ہے یہہی حال ہمارا بی کاغز سے ہم خود بناتے ہے اور پھر اس کی پوجا کرتے ہے کیا کیا مقابلہ کاغز کا انسان کے خونی راشتوں سے کاغز بے جان انسان جاندار مگر وہارے انسان کیا خوب قربان کیا ہے خود کو تونےہر رشتہ یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کے لڑکا امیر ہو چایئے اچھا انسان ہو نہ ہو دین دار ہو نہ ہو حلال کماتا ہو نہ ہو بس پیسہ ہو حرام بہ چلے گا کیوں کے حلال سے تو بمشکل گھر چلتا ہے جو خاندان میں غریب ہو اس کو تو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا جس طرح کافروں میں زات پات ہے اس طرح مسلمانوں میں بی ہے ہم صرف نام کے مسلمان ہے جنھوں نے اللہ کو بھولا دیا وہ بھول گیا کے نہ دنیا پہلے کیسی کی ہوئی ہے نہ آینئدہ کسی کی ہو گی کیوں کے دولت کبی یہ  گارنٹی نہیں دیتی ہے کے خوشیاں ہی رہے گی زندگی میں غم ختم ہو جائے گا ایسا نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو آپ یہ دیکھے دنیا میں جس نے خدا کو اپنا سب کچھ منا ہے دنیا اس کے کادموں میں نچاور کر دی سب پیغمر والی کلندر بزدگ ان کو دولت کی کوئی کمی نہیں سب کا ہو جاتا رب کو راضی کر کے ہم ان کے برابری تو نہیں کر سکتے مگر ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر ہماری ہی ضرورت ہے ہم دنیا آخرت میں کامیاب ہو گئے دولت تو فرعون کے پاس بی تھی لیکن کسی کام نہیں آئی مسلمان ہونے اور مومن بننے میں بہت فرق ہے آخلاق ہونا چایئے نماز کی پابندی ہو پھر رب کہتا ہے کے میں اپنے حقوق تو معاف کد دوگا پر بندوں کے حقوق معاف نہیں کروں ہمیں اس رب کی طرف رجوع کرنا چایئے تو وہ معاف کرنے والا بڑا رحمن ورحیم ہے جو انسان رب کا نہ ہوا تو کیا کسی کا ہوگا



کافر کی پہچان کے آفاق میں گم ہے
           مومن کی یہ پہچان کے گم اس میں ہیں آفاق

امید ہے آپ کو میرا کالم پسند آئے گا 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس